اے صُبح کے غمخوارو
اے صُبح کے غمخوارو! اِس رات سے مت ڈرنا
جس ہات میں خنجر ہے اس ہات سے مت ڈرنا
خورشید کے متوالو! ذرات سے مت ڈرنا
چنگیز نژادوں کی اوقات سے مت ڈرنا
ہاں شاملِ لب ہو گی نفرت بھی، ملامت بھی
گزرے ہُوئے لمحوں کی مرحوم رفاقت بھی
قبروں پہ کھڑے ہو کر جذبات سے مت ڈرنا
آباد ضمیروں کو اُفتادِ ستم کیا ہے
آسودہ ہو جب دل پھر تکلیفِ شکم کیا ہے
تدبیرِ فلک کیا ہے، تقدیرِ اُمم کیا ہے
محرم ہو تو دو دن کے حالات سے مت ڈرنا
رُودادِ سرِ دامن کب تک نہ عیاں ہو گی
نا کردہ گناہوں کے منہ میں تو زباں ہو گی
جس وقت جرائم کی فہرست بیاں ہو گی
اُس وقت عدالت کے اثبات سے مت ڈرنا
اے صُبح کے غمخوارو
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment