Saturday 31 August 2013

کھلی کھلی سی محبت ہرا بھرا دکھ ہے

 کھلی کھلی سی محبت ہرا بھرا دُکھ ہے
 مِرے خدا! یہ جدائی، کمال کا دکھ ہے
 ابھی رہے گا یہ عالم لپٹ کے رونے کا
 وداع یار درختو! نیا نیا دکھ ہے
 ابهی سے لوگ دعا دے رہے ہیں جینے کی
 ابهی تو میں نے کہا بهی نہیں کہ کیا دکھ ہے
 مجھے بتاؤ نہیں، جھیلنے دو پھر اِک بار
 میں جانتا ہوں، محبت بہت بڑا دکھ ہے
 کوئی لباس کفن کے سوا نہیں جچتا
مِرے وجود میں ایسا سِلا ہوا دکھ ہے
 نصیب ہو نہ ہو اگلے پڑاؤ پر مہلت
 یہیں جلا دو جو دل میں پڑا ہوا دکھ ہے
 علاج یہ ہے کہ نشتر لگا دیا جائے
 لہو نہیں یہ رگ و پے میں دوڑتا دکھ ہے
 تمہیں جہاں بهی نظر آئے رو لیا کرنا
 کسی بهی شہر میں رہنا مِرا پتا دکھ ہے

لیاقت علی عاصم 

No comments:

Post a Comment