ہنگامۂ محفل ہے کوئی دَم کہ چلا میں
ساقی مِرے ساغر میں ذرا کم کہ چلا میں
کچھ دیرکی مہمان سرائے ہے یہ دنیا
چلنا ہےتو چل اے مِرے ہمدم، کہ چلا میں
پھر بات ملاقات کبھی ہو کہ نہیں ہو
یہ سلسلۂ آمد وشد کیا ہے، کہ یا رب
اک شور نفس میں ہے دما دم کہ چلا میں
جو عمر گزاری ہے بڑی دھج سے گزاری
اب کوئی خوشی ہے نہ کوئی غم کہ چلا میں
یہ دل کا تپکنا، کہ ٹھہرتا ہی نہیں ہے
یارو کوئی نشتر، کوئی مرہم کہ چلا میں
اے دوست! فرازؔ ایک دِیا ہے تِرے در کا
کیا جانئے کہہ دے وہ کسی دَم کہ چلا میں
احمد فراز
No comments:
Post a Comment