نیند آتے ہی مجھے اس کو گزر جانا ہے
وہ مسافر ہے جسے میں نے شجر جانا ہے
چاند کے ساتھ بہت دور نکل آیا تھا
اب کھڑا سوچتا ہوں، میں نے کدھر جانا ہے
اس کو کہتے ہیں ترے شہر سے ہجرت کرنا
بس یہ کہنا تھا مجھے چھوڑ کے جانے والو
ڈار سے بچھڑی ہوئی کونج نے مر جانا ہے
گر نہ باز آیا مجھے بار سمجھنے والا
میں نے چلتی ہوئی کشتی سے اتر جانا ہے
عباس تابش
No comments:
Post a Comment