Friday, 23 August 2013

نیند آتے ہی مجھے اس کو گزر جانا ہے

نیند آتے ہی مجھے اس کو گزر جانا ہے
 وہ مسافر ہے جسے میں نے شجر جانا ہے
 چاند کے ساتھ بہت دور نکل آیا تھا
 اب کھڑا سوچتا ہوں، میں نے کدھر جانا ہے
 اس کو کہتے ہیں ترے شہر سے ہجرت کرنا
گھر پہنچ کر بھی یہ لگتا کہ گھر جانا ہے
 بس یہ کہنا تھا مجھے چھوڑ کے جانے والو
 ڈار سے بچھڑی ہوئی کونج نے مر جانا ہے
 گر نہ باز آیا مجھے بار سمجھنے والا
 میں نے چلتی ہوئی کشتی سے اتر جانا ہے

 عباس تابش

No comments:

Post a Comment