Friday 23 August 2013

میں دل کی شراب پی رہا ہوں

میں دل کی شراب پی رہا ہوں
 پہلو کا عذاب پی رہا ہوں
 میں اپنے خرابۂ عبث میں
 بے طرح خراب پی رہا ہوں
ہے میرا حساب بے حسابی
 دریا میں سراب پی رہا ہوں
 ہیں سوختہ میرے چشم و مژگاں
 میں شعلۂ خواب پی رہا ہوں
 دانتوں میں ہے میرے شہ رگ جاں
 میں خونِ شباب پی رہا ہوں
 میں اپنے جگر کا خون کر کے
 اے یار شتاب پی رہا ہوں
 میں شعلۂ لب سے کر کے سیّال
 طاؤس و رباب پی رہا ہوں
 وہ لب ہیں بَلا کے زہر آگیں
 میں جن کا لعاب پی رہا ہوں

 جون ایلیا

No comments:

Post a Comment