Thursday 29 August 2013

راستے میں ٹھکانہ پڑتا ہے

راستے میں ٹھکانہ پڑتا ہے
 اِس لیے جانا آنا پڑتا ہے
 آگ دل میں بھڑک رہی ہو اگر
 آنسوؤں سے بُجھانا پڑتا ہے
 خواب کتنا بھی دلفریب سہی
 خواب کو بھُول جانا پڑتا ہے
ہم بھی تو گُلستاں کے باسی ہیں
باغباں کو بتانا پڑتا ہے
 تُم سے ملنے کا شوق اپنی جگہ
 درمیاں اک زمانہ پڑتا ہے
 درد کہہ دے جو میرے ساتھ چلو
 دور تک ساتھ جانا پڑتا ہے
 ہاتھ جل جائیں کہ جلے دامن
 اپنے گھر کو بچانا پڑتا ہے
 جن کو کعبے سے بیر ہو، اُنکو
 بُت کدے کو سجانا پڑتا ہے
 ہجر سے جان کس طرح چُھوٹے؟
 بوجھ اپنا اُٹھانا پڑتا ہے
 کام رانجھے سے جب نہیں ہوتا
ہیر کو گھر بسانا پڑتا ہے
 وہ خدا ہےتو اُسکی چوکھٹ پر
 اپنے سر کو جھُکانا پڑتا ہے
 کون کھوٹا ہے اور کون کھرّا
 آخرش آزمانا پڑتا ہے
 یہ جہاں ہو کہ وہ جہاں ہو بتولؔ
ساتھ سب کا نبھانا پڑتا ہے

فاخرہ بتول

No comments:

Post a Comment