Saturday 31 August 2013

عدو کا ذکر نہیں دوستوں کا نام نہیں

عدو کا ذکر نہیں دوستوں کا نام نہیں
زباں پہ آج کوئی حرفِ انتقام نہیں
در و دریچہ کے داغ و چراغ اپنی جگہ
مجھے جلا کے نہ گزری تو شام شام نہیں
چلو ٹھہر نہیں سکتے، گزر تو سکتے ہو
کہیں کہیں سے شکستہ ہے، دل تمام نہیں
جسے پکارتے پھرتے ہیں کو بہ کو ہم لوگ
وہ ایک عہدِ تمنا ہے، صرف نام نہیں
یہ خاکدانِ تعلق ہے، پیش و پس میں نہ جا
حصولِ آتش و آب و ہوا، مدام نہیں
کئی بجھے ہوئے سینوں کو آگ ہے درکار
زباں پہ نام تمہارا، برائے نام نہیں

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment