عدو کا ذکر نہیں دوستوں کا نام نہیں
زباں پہ آج کوئی حرفِ انتقام نہیں
در و دریچہ کے داغ و چراغ اپنی جگہ
مجھے جلا کے نہ گزری تو شام شام نہیں
چلو ٹھہر نہیں سکتے، گزر تو سکتے ہو
کہیں کہیں سے شکستہ ہے، دل تمام نہیں
جسے پکارتے پھرتے ہیں کو بہ کو ہم لوگ
وہ ایک عہدِ تمنا ہے، صرف نام نہیں
یہ خاکدانِ تعلق ہے، پیش و پس میں نہ جا
حصولِ آتش و آب و ہوا، مدام نہیں
کئی بجھے ہوئے سینوں کو آگ ہے درکار
زباں پہ نام تمہارا، برائے نام نہیں
لیاقت علی عاصم
زباں پہ آج کوئی حرفِ انتقام نہیں
در و دریچہ کے داغ و چراغ اپنی جگہ
مجھے جلا کے نہ گزری تو شام شام نہیں
چلو ٹھہر نہیں سکتے، گزر تو سکتے ہو
کہیں کہیں سے شکستہ ہے، دل تمام نہیں
جسے پکارتے پھرتے ہیں کو بہ کو ہم لوگ
وہ ایک عہدِ تمنا ہے، صرف نام نہیں
یہ خاکدانِ تعلق ہے، پیش و پس میں نہ جا
حصولِ آتش و آب و ہوا، مدام نہیں
کئی بجھے ہوئے سینوں کو آگ ہے درکار
زباں پہ نام تمہارا، برائے نام نہیں
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment