Monday 26 August 2013

ان گنت عذاب ہیں رتجگوں کے درمیاں

ان گنت عذاب ہیں رتجگوں کے درمیاں
درد بے حساب ہیں رتجگوں کے درمیاں
بن چکا ہے دل سوال اب کسی کے ہجر میں
اس پہ لا جواب ہیں رتجگوں کے درمیاں
اشک روک روک اب شل ہوئے ہیں حوصلے
ہر سمے عتاب ہیں رتجگوں کے درمیاں
کاش وہ ملے کہیں تو بتاؤں میں اسے
کس قدر سراب ہیں رتجگوں کے درمیاں
سو چراغ جل بجھے تیرگی نہ کم ہوئی
مستقل حجاب ہیں رتجگوں کے درمیاں
کیا بتاؤں حال میں اس کو اپنے درد کا
وحشتوں کے باب ہیں رتجگوں کے درمیاں
وہ جنہیں خبر نہیں، قلبِ ناصبور کی
چار سُو جناب ہیں رتجگوں کے درمیاں
ایک غم چلا گیا، دوسرے نے آ لیا
سلسلے شتاب ہیں رتجگوں کے درمیاں
رکھ رکھاؤ میں سدا رہ کے آج تک یہاں
حالتیں خراب ہیں رتجگوں کے درمیاں
زندگی کی دوڑ میں پچھلی رُت کے خواب سب
اب بھی ہمرکاب ہیں رتجگوں کے درمیاں
آج یہ کھلا صفی! جاں کے اور غم کئی
شاملِ نصاب ہیں رتجگوں کے درمیاں

عتیق الرحمٰن صفی

No comments:

Post a Comment