Saturday 31 August 2013

کیا بڑے لوگ ہیں یہ عشق کے مارے ہوۓ لوگ

کیا بڑے لوگ ہیں یہ عشق کے مارے ہوئے لوگ
اپنے اِمروز میں فردا کو گزارے ہوئے لوگ
تجھ سے بے رخ ہوئے جب آئینہ خانے تیرے
کام آئے ہیں یہی دل کے سنوارے ہوئے لوگ
سلسلے جوڑتے رہتے ہیں سخن کے کیا کیا
یہ تری چپ، ترے لہجے کے پکارے ہوئے لوگ
آج بھی کل کی طرح تیری طلب رکھتے ہیں
پیچ و خم دیدہ، کئی ہجر گزارے ہوئے لوگ
مڑ کے اک بار ادھر دیکھ تو اے وقت کی رو
وہی اپنے تھے جو اب شہر کو پیارے ہوئے لوگ
تھم گیا شور، مگر پوچھ رہی ہے یہ ہوا
غرق دریا میں کہ دریا کے کنارے ہوئے لوگ
اِس طرف حلقہؑ فریاد و فغاں اور اؐدھر
وہی مسند، وہی مسند سے اتارے ہوئے لوگ
نہ ملی راہ میں ہمسائیگئ مہر تو کیا
اپنی ہی شعلگئ جاں میں ستارے ہوئے لوگ
اپنی آغوش میں رکھنا اِنہیں اے صبحِ کمال
اک قبیلے سے ہیں منسوب یہ ہارے ہوئے لوگ
کوہ کن سا نہ ہوا کوئی سرِ وادئ عشق
ویسے سر دینے کو تیار تو سارے ہوئے لوگ
کیا کہیں تم سے یہ آشفتہ طبیعت اپنی
جو کسی کے نہ ہوۓ تھے وہ تمہارے ہوئے لوگ
اک نصیرؔ اِس صفِ حیرت میں نہیں جانِ غزل
شہر میں سب تِرے جادو کے ہیں مارے ہوئے لوگ

نصیر ترابی

No comments:

Post a Comment