جب انتظار کے لمحے پگھلنے لگتے ہیں
گلی کے لوگ مرے دل پہ چلنے لگتے ہیں
میں اس لئے بھی پرندوں سے دور بھاگتا ہوں
کہ ان میں رہ کے مرے پر نکلنے لگتے ہیں
عجیب پیڑ ہیں ان کو حیا نہیں آتی
کبھی کبھی کسی بچے کی روح آتی ہے
کبھی کبھی مرے گھر گیند اچھلنے لگتے ہیں
وہ ہاتھ ہاتھ میں آنے کی دیر ہوتی ہے
ستارے اور کسی رخ پہ چلنے لگتے ہیں
جب آسمان پہ تابشؔ دھنک ابھرتی ہے
ہم اپنے ساتھ چھتوں پر ٹہلنے لگتے ہیں
عباس تابش
چھتوں پر
ReplyDeleteپڑوسیوں کی چھت بھی بھی شامل ہے اس میں شید اس لئے چھتوں پر ٹہلنے کی بات ہو رہی ہے
@tariq ali shah
ReplyDeleteشاعر نے تو صرف
ہم اپنے ساتھ چھتوں پر ٹہلنے لگتے ہیں
کی بات کی ہے، آپ بات کو اپنی طرف لے گئے