Friday 23 August 2013

جب انتظار کے لمحے پگھلنے لگتے ہیں

جب انتظار کے لمحے پگھلنے لگتے ہیں
 گلی کے لوگ مرے دل پہ چلنے لگتے ہیں
 میں اس لئے بھی پرندوں سے دور بھاگتا ہوں
 کہ ان میں رہ کے مرے پر نکلنے لگتے ہیں
 عجیب پیڑ ہیں ان کو حیا نہیں آتی
 ہمارے سامنے کپڑے بدلنے لگتے ہیں
 کبھی کبھی کسی بچے کی روح آتی ہے
کبھی کبھی مرے گھر گیند اچھلنے لگتے ہیں
 وہ ہاتھ ہاتھ میں آنے کی دیر ہوتی ہے
 ستارے اور کسی رخ پہ چلنے لگتے ہیں
 جب آسمان پہ تابشؔ دھنک ابھرتی ہے
 ہم اپنے ساتھ چھتوں پر ٹہلنے لگتے ہیں

 عباس تابش

2 comments:

  1. چھتوں پر
    پڑوسیوں کی چھت بھی بھی شامل ہے اس میں شید اس لئے چھتوں پر ٹہلنے کی بات ہو رہی ہے

    ReplyDelete
  2. @tariq ali shah
    شاعر نے تو صرف
    ہم اپنے ساتھ چھتوں پر ٹہلنے لگتے ہیں
    کی بات کی ہے، آپ بات کو اپنی طرف لے گئے

    ReplyDelete