Friday 23 August 2013

تجھ جیسا ہر طرف نظر آنا تو ہے نہیں

تجھ جیسا ہر طرف نظر آنا تو ہے نہیں
 دل آئینہ ہے، آئینہ خانہ تو ہے نہیں
 اے ہجر! تُو ہی کر لے کوئی شکل اختیار
 بچھڑے ہوؤں نے لوٹ کے آنا تو ہے نہیں
 کیوں خواب اور سانپ میں رہتی ہے کشمکش 
 آنکھوں کی تہ میں کوئی خزانہ تو ہے نہیں
تُو نے بھی اس بلندی سے مہتاب کی طرح 
 آتے دکھائی دینا ہے, آنا تو ہے نہیں
 تجھ سے معاملہ تو ہے خود سے معاملہ 
 تُو زندگی ہے دوست! زمانہ تو ہے نہیں

عباس تابش

No comments:

Post a Comment