تجھ جیسا ہر طرف نظر آنا تو ہے نہیں
دل آئینہ ہے، آئینہ خانہ تو ہے نہیں
اے ہجر! تُو ہی کر لے کوئی شکل اختیار
بچھڑے ہوؤں نے لوٹ کے آنا تو ہے نہیں
کیوں خواب اور سانپ میں رہتی ہے کشمکش
تُو نے بھی اس بلندی سے مہتاب کی طرح
آتے دکھائی دینا ہے, آنا تو ہے نہیں
تجھ سے معاملہ تو ہے خود سے معاملہ
تُو زندگی ہے دوست! زمانہ تو ہے نہیں
عباس تابش
No comments:
Post a Comment