Wednesday 28 August 2013

فریب جبہ و دستار ختم ہونے کو ہے

فریبِ جبہ و دستار ختم ہونے کو ہے
لگا ہوا ہے جو دربار ختم ہونے کو ہے
کہانی کار نے اپنے لیے لکھا ہے جسے
کہانی میں وہی کردار ختم ہونے کو ہے
سمجھ رہے ہو کہ تم سے ہے گرمئ بازار
سو اب یہ گرمئ بازار ختم ہونے کو ہے
مسیحا! کیسا تجھے لگ رہا ہے، کچھ تو بتا
کہ تیرے سامنے بیمار ختم ہونے کو ہے
برہنہ ہوتی چلی جا رہی ہے یہ دنیا
کہیں گلی، کہیں دیوار ختم ہونے کو ہے
یہ کیا ہوا تجھے تسلیم کرنے والوں میں
سنا ہے جرأتِ اظہار ختم ہونے کو ہے
جو مجھ پہ بِیت گئی، وہ خبر نہیں ملتی
کہ اب تو سارا ہی اخبار ختم ہونے کو ہے
اب اس کے بعد نئي زندگی کا ہے آغاز
یہ زند گی تو مِرے یار ختم ہونے کو ہے
سلیمؔ کثرتِ اشیاء کی گرد میں آخر
غرورِ درہم و دینار ختم ہونے کو ہے

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment