Monday 26 August 2013

یوں بھی جھکتی نہیں اس دل کی جبیں اور کہیں

یوں بھی جُھکتی نہیں اس دل کی جبیں اور کہیں
بس تُو ہی تُو ہے کوئی تجھ سا نہیں اور کہیں
دل تو ہر گام، تِرے کُوچے کا رُخ کرتا ہے
کھینچ لیتی ہے مگر ہم کو زمیں اور کہیں
کب تلک عکس بھروں شہر کے آئینوں میں
مجھ کو لے چل اے مِری زہرہ جبیں! اور کہیں
تجھ سے مانگے ہوئے لمحوں میں ملاقات ہوئی
کھو دیا عمر نے فرصت کا نگیں اور کہیں
کُوئے گردش میں تو گھر ایک سرائے شب ہے
شام کرتے ہیں یہاں گھر کے مکیں اور کہیں
میری نس نس میں سمو کر مِری مٹی کی مہک
رب نے لکھا ہے مِرا نانِ جویں اور کہیں
یار آنکھیں کبھی منظر سے ہٹا کر دیکھو
آسماں اور کہیں پر ہے، زمیں اور کہیں
وقت کی تیز لکیروں سے الجھتے ہیں سعیدؔ
ہم کہ اس شہر سے جاتے بھی نہیں اور کہیں

سعید خان

No comments:

Post a Comment