Sunday, 25 August 2013

گزرا ہوں جس طرف سے بھی پتھر لگے مجھے​

گزرا ہوں جس طرف سے بھی پتھر لگے مجھے​
ایسے بھی کیا تھے لعل و جواہر لگے مجھے​
لو ہو چکی شفا کہ مداوائے دردِ دل​
اب تیری دسترس سے بھی باہر لگے مجھے​
ترسا دیا ہے ابرِ گریزاں نے اس قدر​
برسے جو بوند بھی تو سمندر لگے مجھے​
تھامے رہو گے جسم کی دیوار تابکے​
یہ زلزلہ تو روح کے اندر لگے مجھے​
گر روشنی یہی ہے تو اے بدنصیب شہر​
اب تیرگی ہی تیرا مقدر لگے مجھے​
منزل کہاں کی، زادِ سفر کو بچائیو​
اب رہزنوں کی نیّتِ رہبر لگے مجھے​
وہ مطمئن کہ سب کی زباں کاٹ دی گئی​
ایسی خموشیوں سے مگر ڈر لگے مجھے​
وہ قحطِ حرف حق ہے کہ اس عہد میں فرازؔ
خود سا گنہگار پیمبر لگے مجھے​

 احمد فراز

No comments:

Post a Comment