چاہا تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلا
تصویر بدلنے سے بھی منظر نہیں بدلا
خوف آتا ہے اُمید ہی رَستہ نہ بدل لے
جب اتنی تباہی پہ بھی یہ گھر نہیں بدلا
ممکن ہے کہ منزل کا تعیّن ہی غلط ہو
اب تک تو مِری راہ کا پتھر نہیں بدلا
تاریخ تمہاری بھی گواہی کبھی دیتی
نیزہ ہی بدل جاتا، اگر سر نہیں بدلا
پیروں میں زمیں، آسماں سر پر ہے ابھی تک
چادر نہیں بدلی، مِرا بستر نہیں بدلا
کیسے تِرے کہنے سے بدل جاؤں کہ اب تک
دریاؤں کی خواہش پہ سمندر نہیں بدلا
تصویر بدلنے سے بھی منظر نہیں بدلا
خوف آتا ہے اُمید ہی رَستہ نہ بدل لے
جب اتنی تباہی پہ بھی یہ گھر نہیں بدلا
ممکن ہے کہ منزل کا تعیّن ہی غلط ہو
اب تک تو مِری راہ کا پتھر نہیں بدلا
تاریخ تمہاری بھی گواہی کبھی دیتی
نیزہ ہی بدل جاتا، اگر سر نہیں بدلا
پیروں میں زمیں، آسماں سر پر ہے ابھی تک
چادر نہیں بدلی، مِرا بستر نہیں بدلا
کیسے تِرے کہنے سے بدل جاؤں کہ اب تک
دریاؤں کی خواہش پہ سمندر نہیں بدلا
سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment