میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شورِ زنجیر
اور صحرا میں کوئی نقشِ کفِ پا بھی نہیں
بے نیازی سے سبھی قریۂ جاں سے گزرے
دیکھتا کوئی نہیں ہے کہ تماشا بھی نہیں
وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تُو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں
کس کو نیرگئی ایّام کی صورت دکھلائیں
رنگ اڑتا بھی نہیں، نقش ٹھہرتا بھی نہیں
اسلم انصاری
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شورِ زنجیر
اور صحرا میں کوئی نقشِ کفِ پا بھی نہیں
بے نیازی سے سبھی قریۂ جاں سے گزرے
دیکھتا کوئی نہیں ہے کہ تماشا بھی نہیں
وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تُو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں
کس کو نیرگئی ایّام کی صورت دکھلائیں
رنگ اڑتا بھی نہیں، نقش ٹھہرتا بھی نہیں
اسلم انصاری
No comments:
Post a Comment