Wednesday 28 August 2013

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شورِ زنجیر
اور صحرا میں کوئی نقشِ کفِ پا بھی نہیں
بے نیازی سے سبھی قریۂ جاں سے گزرے
دیکھتا کوئی نہیں ہے کہ تماشا بھی نہیں
وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تُو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں
کس کو نیرگئی ایّام کی صورت دکھلائیں
رنگ اڑتا بھی نہیں، نقش ٹھہرتا بھی نہیں

اسلم انصاری

No comments:

Post a Comment