Monday 26 August 2013

رستوں کی لکیروں میں بھٹک جاؤ مرے ساتھ

رستوں کی لکیروں میں بھٹک جاؤ مِرے ساتھ
 نکلے ہو تو پھر دور تلک جاؤ مرے ساتھ
 روکو گے مئے عشق کو سینے میں کہاں تک
 ہونٹوں کے پیالوں سے چھلک جاؤ مرے ساتھ
 کلیوں کے لبوں پر ہیں محبت کے فسانے
موسم کا تقاضا ہے مہک جاؤ مرے ساتھ
 حالات کے پنجرے سے کہیں دُور نکل کر
 جذبات کے جنگل میں بھٹک جاؤ مرے ساتھ
 باغات کے دامن سے اٹھو مثلِ بہاراں
 دریاؤں کی چاندی میں چمک جاؤ مرے ساتھ
 آمادۂ گفتار ہے صد موجۂ ریشم
 بوسوں کے تلاطم میں بہک جاؤ مرے ساتھ
 ہر عشق حکایت ہمیں دہرائے ازل تک
 یوں وقت کے سینے میں دھڑک جاؤ مرے ساتھ
 ممکن ہے یہی آگ ہمیں کیمیاء کر دے
 احساس کے شعلوں میں لپک جاؤ مرے ساتھ
 آگے کہیں جانا ہے اگر دار و رسن سے
 وحشت کی صلیبوں پہ لٹک جاؤ مرے ساتھ

سعید خان

No comments:

Post a Comment