کہیں آرزوئے سفر نہیں، کہیں منزلوں کی خبر نہیں
کہیں راستہ ہی اندھیر ہے، کہیں پا نہیں کہیں پَر نہیں
مجھے اضطراب کی چاہ تھی مجھے بے کلی کی تلاش تھی
انھیں خواہشات کے جرم میں کوئی گھر نہیں کوئی دَر نہیں
کوئی چاند ٹوٹے یا دل جلے یا زمیں کہیں سے اُبل پڑے
اے ہوائے موسم ذرا مجھے ساتھ رکھ، میرے ساتھ چل
میرے ساتھ میرے قدم نہیں، میرے پاس میری نظر نہیں
یہ جو عمر بھر کی ریاضتیں، یہ نگر نگر کی مسافتیں
یہ تو روگ ہیں مہ وسال کا، یہ تو گردشیں ہیں سفر نہیں
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment