روشن وہ مرا گوشۂ تنہائی تو کر جائے
یادوں میں سہی، انجمن آرائی تو کر جائے
یہ میری ضمانت ہے کہ پائے گا وہ شہرت
تھوڑی سی وہ پہلے مری رسوائی تو کر جائے
کر دوں میں اُسے عقل کے مفہوم سے واقف
سب کہتے رہیں میں اُسے قاتل نہ کہوں گا
لیکن وہ کوئی کارِ مسیحائی تو کر جائے
میں دیکھ سکوں چہروں کے پیچھے بھی ہے کیا کچھ
اتنی سی عطا وہ مجھے بینائی تو کر جائے
میں کر تو سکوں جرمِ محبت کی وضاحت
پھر جو وہ سزا دے، مری شنوائی تو کر جائے
ہے فرض قتیلؔ اُس پہ مرا جان چھڑکنا
پر وہ مری کُچھ حوصلہ افزائی تو کر جائے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment