فِگار پاؤں مرے، اشک نارسا میرے
کہیں تو مِل مجھے، اے گمشدہ خدا میرے
میں شمع کُشتہ بھی تھا، صبح کی نوید بھی تھا
شکست میں کوئی انداز دیکھتا میرے
وہ دردِ دل میں ملا، سوزِ جسم و جاں میں ملا
ہر ایک شعر میں، میں اُسکا عکس دیکھتا ہوں
مری زباں سے جو اشعار لے گیا میرے
سفر بھی میں تھا، مسافر بھی تھا، راہ بھی میں
کوئی نہیں تھا کئی کوس ماسوا میرے
وفا کا نام بھی زندہ ہے، میں بھی زندہ ہوں
اب اپنا حال سنا، مجھ کو بے وفا میرے
وہ چارہ گر بھی اُسے دیر تک سمجھ نہ سکا
جگر کا زخم تھا، نغموں میں ڈھل گیا میرے
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment