Wednesday 28 August 2013

جنہیں خوابوں سے انکاری بہت ہے

جنہیں خوابوں سے انکاری بہت ہے
ان آنکھوں میں بھی بیداری بہت ہے
نہایت خوبصورت ہے وہ چہرہ
مگر جذبات سے عاری بہت ہے
اُسے میں یاد رکھنا چاہتا ہوں
مگر اِس میں بھی دشواری بہت ہے
سبَب ہو کوئی تو بتلائیں بھی ہم
کہ گریہ رات سے طاری بہت ہے
بہت مصروفیت کی جَا ہے دُنیا
مگر لوگوں میں بے کاری بہت ہے
مجھے بھی مہلتِ یک دو نفس دے
مجھے بھی زندگی پیاری بہت ہے
اِدھر اعضاء بکھرتے جا رہے ہیں
اُدھر دشمن کی تیاری بہت ہے
یہی نانِ جویں محنت ہے میری
اسی محنت میں سرشاری بہت ہے
اِسی مٹی میں ہیں افلاک میرے
اِسی میں خُوئے سرداری بہت ہے
انہی لوگوں میں ہیں کچھ لوگ میرے
مرے لوگوں میں خودداری بہت ہے
سُخں کا بوجھ کیسے اُٹھ سکے گا
جو پتھر ہے یہاں، بھاری بہت ہے
مرے ساحل سمندر روکتے ہیں
سلیمؔ! اتنی وفاداری بہت ہے

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment