Thursday 22 August 2013

وہ نہیں تو ڈستا ہے بام و در کا سناٹا

وہ نہیں، تو ڈستا ہے بام و در کا سناٹا
 اف یہ دل کی ویرانی، یہ نظر کا سناٹا
 خوش خیال لوگوں کو بد گماں نہ کر ڈالے
 کچھ اِدھر کی خاموشی، کچھ ادھر کا سناٹا
کاش کویٔی پڑھ سکتا، کاش کویٔی سن سکتا
 شام کی شفق میں تھا رات بھر کا سناٹا
 دوستی بڑی نازک چیز ہے زمانے میں
دے گیا ہے اک لمحہ، عمر بھر کا سناٹا
 جِن کی کھڑکیوں میں کل ماہتاب ہنستے تھے
 اب انہی مکانوں میں ہے کھنڈر کا سناٹا
 دل کو کیسے سمجھاؤں، بھولتا نہیں دانش
 اک سفر کی کچھ باتیں، اک سفر کا سناٹا

 احسان دانش

No comments:

Post a Comment