Friday 23 August 2013

کوئی نہیں یہاں خموش، کوئی پکارتا نہیں

 کوئی نہیں یہاں خموش، کوئی پکارتا نہیں
 شہر میں اک شور ہے اور کوئی صدا نہیں
 آج وہ پڑه لیا گیا جس کو پڑها نہ جا سکا
 آج کسی کتاب میں کچھ بهی لکها ہوا نہیں
 اپنے سبهی گلے بجا، پر ہے یہی کہ دلربا 
 میرا تیرا معاملہ عشق کے بس کا تها نہیں
خرچ چلے گا اب میرا، کس کے حساب میں بهلا
 سب کے لئے بہت ہوں میں، اپنے لئے زرا نہیں
 جائے خود میں رائیگاں اور وہ یوں کے دوستاں
 ذات کا کوئی ماجرا، شہر کا ماجرا نہیں
 جب وہ نگارِ سہسرام، ہم سے ہوا تها ہمکنار
 کون بہار کا نہ تها، کون بہار کا نہیں 
 دل میری جان مان لو، آپ نے خود کشی تو کی
 وہ فقط آسماں کا ہے، جو بهی زمین کا نہیں
 رسمِ وفا بدل چلیں، یاں سے کہیں نکل چلیں
 کوئے ختن کے یار کی، اب وہ مزہ رہا نہیں
 سینہ بہ سینہ لب بہ لب ایک فراق ہے کہ ہے
 ایک فراق ہے کہ ہے، ایک فراق کیا نہیں 
 اپنا شمار کیجئیو اے میری جان! تُو کبهی
 میں نے بهی اپنے آپ کو آج تلک گنا نہیں
 تو وہ بدن ہے جس میں جان، آج لگا ہے جی میرا
 جی تو کہیں لگا تیرا، سن! ترا جی لگا نہیں
 نام ہی نام چار سو، ایک ہجوم روبرو
 کوئی تو ہو مرے سوا، کوئی مرے سوا نہیں
 اپنی جبیں پہ میں نے آج دیں کئی بار دستکیں
 کوئی پتہ بهی ہے تیرا، مرا کوئی پتہ نہیں
 پوچھ تو واقعہ ہے کیا، دیکھ تو حادثہ ہے کیا
 شام ہے اور شہر میں، گهر کوئی جل رہا نہیں 
 ایک عجیب کربلا، صبح سے تهی وہاں بپا
عرصۂ دل میں شام سے کوئی بچا بهی یا نہیں
 رشتہ وہ شوق کا جو تها شوق کی نظر ہو گیا
 اب کوئی بے وفا نہیں، اب کوئی با وفا نہیں 

 جون ایلیا

No comments:

Post a Comment