Friday, 23 August 2013

خون تھوکے گی زندگی کب تک

خون تھوکے گی زندگی کب تک
 یاد آئے گی اب تری کب تک
 جانے والوں سے پوچھنا یہ صبا
 رہے آباد دل گلی کب تک
ہو کبھی تو شرابِ وصل نصیب
 پیے جاؤں میں خون ہی کب تک
 دل نے جو عمر بھر کمائی ہے
 وہ دُکھن دل سے جائے گی کب تک
 جس میں تھا سوزِ آرزو اس کا
 شبِ غم وہ ہوا چلی کب تک
 بنی آدمؑ کی زندگی ہے عذاب
 یہ خدا کو رُلائے گی کب تک
 حادثہ، زندگی ہے آدمؑ کی
 ساتھ دے گی بَھلا خوشی کب تک
 ہے جہنم جو یاد اب اس کی
 وہ بہشتِ وجود تھی کب تک
 وہ صبا اسکے بِن جو آئی تھی
 وہ اُسے پوچھتی رہی کب تک
 میر جونیؔ! ذرا بتائیں تو
 خود میں ٹھیریں گے آپ ہی کب تک
 حالِ صحنِ وجود ٹھیرے گا
 تیرا ہنگامِ رُخصتی کب تک
 میں سہوں کربِ زندگی کب تک
 رہے آخر تری کمی کب تک
 کیا میں آنگن میں چھوڑ دوں سونا
 جی جلائے گی چاندنی کب تک
 اب فقط یاد رہ گئی ہے تری
 اب فقط تری یاد بھی کب تک
 میں بھلا اپنے ہوش میں کب تھا
 مجھ کو دنیا پُکارتی کب تک
 خیمہ گاہِ شمال میں، آخر
 اسکی خوشبو رچی بسی کب تک
 اب تو بس آپ سے گلہ ہے یہی
 یاد آئیں گے آپ ہی کب تک
 مرنے والو! ذرا بتاؤ تو
 رہے گی یہ چلا چلی کب تک
 جسکی ٹوٹی تھی سانس آخرِ شب
 دفن وہ آرزو ہوئی کب تک
 دوزخِ ذات! باوجود ترے
 شبِ فرقت نہیں جلی کب تک
 اپنے چھوڑے ہوئے محلوں پر
 رہا دورانِ جاں کنی کب تک
 نہیں معلوم میرے آنے پر
 اسکے کوچے میں لُو چلی کب تک

 جون ایلیا

No comments:

Post a Comment