Friday, 23 August 2013

ناروا ہے سخن شکایت کا

ناروا ہے سخن شکایت کا
 وہ نہیں تھا میری طبیعت کا
 دشت میں شہر ہو گئے آباد
 اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا
وقت ہے اور کوئی کام نہیں
 بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا
 بس اگر تذکرہ کروں تو کروں
 کس کی زلفوں کا کس کی قامت کا
 مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے
 ہر طرف ہے گلہ حقیقت کا
 اب مجھے دھیان ہی نہیں آتا
 اپنے ہونے کا، اپنی حالت کا
 تجھ کو پا کر زیاں ہوا ہم کو
 تو نہیں تھا ہماری قیمت کا
 صبح سے شام تک میری دُنیا
 ایک منظر ہے اسکی رخصت کا
 کیا بتاؤں کہ زندگی کیا تھی
 خواب تھا جاگنے کی حالت کا
 کہتے ہیں انتہائے عشق جسے
 اک فقط کھیل ہے مروّت کا
 آ گئی درمیان روح کی بات
 ذکر تھا جسم کی ضرورت کا
 زندگی کی غزل تمام ہوئی
 قافیہ رہ گیا محبت کا

 جون ایلیا

No comments:

Post a Comment