Thursday, 22 August 2013

آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے

مکان

آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں، تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
یہ زمین تب بھی نگل لینے پہ آمادہ تھی
پاؤں جب ٹوٹی شاخوں سے اتارے ہم نے
ان مکانوں کو خبر نہ مكينوں کو خبر
ان دنوں کی جو گپھاؤں میں گزارے ہم نے
ہاتھ ڈھلتے گئے سانچے میں تو تھکتے کیسے
نقش کے بعد نئے نقش نكھارے ہم نے
کہ یہ دیوار بلند، اور بلند ہے، اور بلند
بام و شرح اور ذرا، اور سنوارا ہم نے
اندھياں توڑ لیا کرتی تھی شمعوں کی لویں
جڑ دیے اس لیے بجلی کے ستارے ہم نے
بن گیا قصر تو پہرے پہ کوئی بیٹھ گیا
سو رہے خاک پہ ہم شورشِ تعمیر لیے
اپنی نس نس میں لیے محنتِ پہیم کی تھکن
بند آنکھوں میں اسی قصر کی تصویر لیے
دن پگھلاتا ہے اسی طرح سروں پر اب تک
رات آنکھوں میں كھٹكتی ہے سیاہ تیر لیے
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں، تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی

کیفی اعظمی 

No comments:

Post a Comment