Friday 23 August 2013

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
 ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
 جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے سے نقاب
 حوصلہ کرتے ہیں، لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
 وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں
 اب تو مدّت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
 اب تو ان کا طُور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
 ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
 ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں
 ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
 ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں
 ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
 ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں
 بارہا دیکھا ہے ساغرؔ رہگذارِ عشق میں
 کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں

ساغر صدیقی

No comments:

Post a Comment