دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمینِ چمن، گل کھِلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تمہارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گُل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چُن چُن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گُل ہیں نہ غُنچے نہ بُوٹے نہ پتّے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
کبھی لہریں ترا چہرہ جو بنانے لگ جائیں
میری آنکھیں مُجھے دریا میں بہانے لگ جائیں
کبھی اِک لمحۂ فُرصت جو میسّر آ جائے
میری سوچیں مُجھے سُولی پہ چڑھانے لگ جائیں
انتظار اس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنا
کیا خبر، برف پِگھلنے میں زمانے لگ جائیں
میری داستانِ اَلم تو سُن، کوئی زلزلہ نہیں آئے گا
میرا مُدعا نہیں آئے گا، تیرا تذکرہ نہیں آئے گا
میری زندگی کے النگ میں کئی گھاٹیاں کئی موڑ ہیں
تیری واپسی بھی ہوئی اگر تُجھے راستہ نہیں آئے گا
اگر آئے دن تیری راہ میں تیری کھوج میں تیری چاہ میں
یونہی قافلے کہ جو لُٹ گئے، کوئی قافلہ نہیں آئے گا
پھول بن کر تِری ہر شاخ پہ کھلتا میں تھا
خُوشبوئیں تُجھ میں اُترتی تھیں، مہکتا میں تھا
میری سانسوں میں گھُلی تھیں تِری صُبحیں شامیں
تیری یادوں میں گُزرتا ہوا عرصہ میں تھا
شور تھا جیسے سمندر میں ہو گِرتا دریا
اور جب غور سے دیکھا تو اکیلا میں تھا
تُو مُعمہ ہے تو حل اس کو بھی کرنا ہے مُجھے
تُو سمندر ہے تو پھر تہ میں اترنا ہے مجھے
تُو نے سوچا تھا کہ جلووں سے بہل جاؤں گا
ایسے کتنے ہی سرابوں سے گزرنا ہے مُجھے
قہر جتنا ہے تیری آنکھ میں برسا دے، مگر
اسی گرداب میں پھنس کر تو ابھرنا ہے مجھے
زمانہ خُوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی
چراغِ جاں کو نذرِ بادِ بے لحاظ کر کے بھی
غُلام گردشوں میں ساری عُمر کاٹ دی گئی
حصولِ جاہ کی روش پہ اعتراض کر کے بھی
خجل ہوئی ہیں قیامتیں، قیامتوں کے زعم میں
مذاق بن کے رہ گئیں ہیں قد دراز کر کے بھی
خزانۂ زر و گوہر پہ خاک ڈال کے رکھ
ہم اہلِ مہر و محبت ہیں، دل نکال کے رکھ
ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تُو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ
ذرا سی دیر کا ہے یہ عروجِ مال و منال
ابھی سے ذہن میں سب زاویے زوال کے رکھ
یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں، وہیں کے نہیں
جو ہم یہاں کے نہیں ہیں تو پِھر کہیں کے نہیں
وفا سرشت میں ہوتی، تو سامنے آتی
وہ کیا فلک سے نبھائیں گے جو زمیں کے نہیں
ہوا کی گرم خرامی سے پڑ رہے ہیں بھنور
یہ پیچ و تاب کسی موجِ تِہ نشیں کے نہیں
تُو رنگ ہے، غُبار ہیں تیری گلی کے لوگ
تُو پُھول ہے، شرار ہیں تیری گلی کے لوگ
تُو رونقِ حیات ہے، تُو حُسنِ کائنات
اُجڑا ہوا دیار ہیں تیری گلی کے لوگ
تُو پیکرِ وفا ہے، مجسّم خلوص ہے
بدنام روزگار ہیں تیری گلی کے لوگ
اندر سے کوئی گھنگھرو چھَنکے کوئی گیت سنیں تو لِکھیں بھی ہم دھیان کی آگ میں تپتے ہیں کچھ اور تپیں تو لِکھیں بھی یہ لوگ بے چارے کیا جانیں کیوں ہم نے حرف کا جوگ لیا اس راہ چلیں تو سمجھیں بھی، اس آگ جلیں تو لِکھیں بھی دن رات ہوئے ہم وقفِ رفُو، اب کیا محفل، کیا فکرِ سخن یہ ہات رُکیں تو سوچیں بھی، یہ زخم سِلیں تو لِکھیں بھی
ذِکر جہلم کا ہے، بات ہے دِینے کی
چاند پُکھراج کا، رات پشمینے کی
کیسے اوڑھے گی اُدھڑی ہوئی چاندی
رات کوشش میں ہے چاند کو سِینے کی
کوئی ایسا گِرا ہے نظر سے، کہ بس
ہم نے صُورت نہ دیکھی پِھر آئینے کی
رات کا پچھلا پہر ہے اور میں
جاگتا سوتا نگر ہے اور میں
میں کہ سنگ آسا ہُوا ہوں دوستو
کیسے جادو کا اثر ہے اور میں
حکم ہے جرعہ کشی کا دیکھئے
زہر لب پر قدح بھر ہے اور میں
کھوٹ اپنی کہہ سکیں جس سے کوئی ایسا بھی ہو
ہم تو پتھر ہیں، سفر میں اک عدد شِیشہ بھی ہو
بے تعلق شخص سے بہتر ہے وہ ساتھی مرا
غم میں جو ہنستا بھی ہو، تسکِیں مگر دیتا بھی ہو
یاد کچھ آتا نہیں، ہم نے اسے دیکھا کہاں؟
کیا خبر وہ خود بھی ہو، تصویر کا چہرہ بھی ہو
آنکھوں سے رنگ، پھول سے خوشبو جدا رہے
روٹھی رہے حیات، وہ جب تک خفا رہے
اتنے قریب آ کہ نہ کچھ فاصلہ رہے
سانسوں کے ماسوا نہ کوئی سِلسلہ رہے
دستک کوئی نہ در پہ ہو لیکن لگن رہے
ہر لمحہ انتظار یہ کسی کا لگا رہے
ابھی سے آفتِ جان ہے ادا ادا تیری
یہ ابتداء ہے تو کیا ہو گی انتہا تیری
میری سمجھ میں یہ قاتل نہ آج تک آیا
کہ قتل کرتی ہے تلوار یا ادا تیری؟
نقاب لاکھ چُھپائے وہ چُھپ نہیں سکتی
میری نظر میں جو صُورت ہے دلربا تیری
حوصلہ وصل کا، قِسمت نے نکلنے نہ دیا
ان کو شوخی نے مجھے دل نے سنبھلنے نہ دیا
قتل کر کے مجھے، جانا تھا انہیں مقتل سے
آپ چلتے ہوئے، تلوار کو چلنے نہ دیا
جام پر جام پلاتی رہی چشمِ ساقی
مجھ کو اِس دورِ مسلسل سے سنبھلنے نہ دیا
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خُوشبُو آئے
درد پُھولوں کی طرح مہکیں، اگر تُو آئے
بِھیگ جاتی ہیں اِس اُمید پر آنکھیں ہر شام
شاید اِس رات وہ مہتاب، لبِ جُو آئے
ہم تیری یاد سے کترا کے گزر جاتے، مگر
راہ میں پُھولوں کے لب، سایوں کے گیسُو آئے
کچھ اِس طرح وہ گِھری ہوئی تھی سہیلوں میں
گلاب جیسے کِھلا ہوا ہو، چنبیلیوں میں
کوئی کیا سمجھے میں خود بھی اسکو سمجھ نہ پایا
وہ بات کرتی ہے مجھ سے اکثر پہلیوں میں
میں سوچتا ہوں وہ میرے گھر میں رہے گی کیسے
رہی ہو اب تک جو اونچی اونچی حویلیوں میں
زلف ریشم ہے تو چہرہ اجالوں جیسا
وہ تو لگتا ہے، تروتازہ گُلابوں جیسا
اس کی باتیں تو ہیں گنگھور گھٹاؤں جیسی
اس کا مخمُور سا لہجہ ہے شرابوں جیسا
خود ہی کھلتا ہے مگر مجھ پہ بھی تھوڑا تھوڑا
اِتنا مشکل ہے کہ لگتا ہے نِصابوں جیسا
اسے اپنے فردا کی فِکر تھی، وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اُس کی صبحِ عروج تھی، وہی میرا وقتِ زوال تھا
میرا درد کیسے وہ جانتا، میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے سفر پہ تھا، اسے روکنا بھی محال تھا
کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کر، میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گیا
وہ جواب مجھ کو نہ دے سکا، وہ تو خود سراپا سوال تھا
چہرے پہ اپنا دستِ کرم پھیرتی ہوئی
ماں رو پڑی ہے سَر کو مِرے چومتی ہوئی
اب کتنے دن رہو گے مِرے پاس تم یہاں
تھکتی نہیں ہے مجھ سے یہی پوچھتی ہوئی
رہتی ہے جاگتی وہ مِری نیند کے لیے
بچوں کو مجھ سے دور پرے روکتی ہوئی
قاصد جو تھا بہار کا، نامعتبر ہُوا
گُلشن میں بندوبست برنگِ دِگر ہُوا
خواہش جو شاخِ حرف پہ چَٹکی، بِکھر گئی
آنسو جو دِل میں بند رہا، وہ گُہر ہُوا
اِک منحرف گواہ کی صُورت، چراغِ شام
اُس کی گلی میں رات مرا ہمسفر ہوا
بِچھڑ کے تجھ سے، تیری یاد کے نگر آئے
کہ اِک سفر سے کوئی جیسے اپنے گھر آئے
ہمارے ساتھ رُکے گی ہماری تنہائی
تمہارے ساتھ گئے جو بھی دربدر آئے
گماں بھٹکنے لگے تھے پسِ نِگاہ، مگر
چراغ دور سے جلتے ہوئے نظر آئے
کسی بھی لفظ کا جادو اَثر نہیں کرتا
وہ اپنے دل کی مجھے بھی خبر نہیں کرتا
بنا ہوا ہے بظاہر وہ بے تعلّق بھی
جو مجھ کو سوچے بِنا دن بسر نہیں کرتا
ٹھہرنے بھی نہیں دیتا ہے اپنے دل میں مجھے
محبتیں بھی مِری دل بدر نہیں کرتا
قربان میں اُنؐ کی بخشِش کے مقصد بھی زباں پر آیا نہیں
بِن مانگے دیا اور اتنا دیا، دامن میں ہمارے سمایا نہیں
آواز، کَرم دیتا ہی رہا، تھک ہار گئے لینے والے
منگتوں کی ہمیشہ لاج رکھی، محرُوم کوئی لوٹایا نہیں
رحمت کا بھرم بھی تُمؐ سے ہے، شفقت کا بھرم بھی تُمؐ سے ہے
ٹھکرائے ہوئے انساں کو بھی تُمؐ نے تو کبھی ٹھکرایا نہیں
ہے تیریؐ عنایات کا ڈیرا میرے گھر میں
سب تیراؐ ہے کچھ بھی نہیں میرا میرے گھر میں
جاگا تیریؐ نِسبت سے یہ تارِیک مُقدّر
آیا تیرےؐ آنے سے سویرا میرے گھر میں
مِدحت نے تیریؐ مجھ کو یہ اعزاز دیا ہے
ہے سارے اُجالوں کا بسیرا میرے گھر میں
نور برسا پھول سے اور خون برسا سنگ سے
اہتمامِ فصلِ گل ہے اپنے اپنے رنگ سے
پا شکستہ ہوں مگر محرومِ ذوقِ دل نہیں
منزلوں کو دیکھ لیتا ہوں کئی فرسنگ سے
مجھ کو آوارہ ہواؤ! ساتھ اپنے لے چلو
میرا جی گھبرا گیا ہے اس جہانِ تنگ سے
جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو
میں پیمبر تو نہیں، میرا کہا کیسے ہو
دل کے ہر ذرے پہ ہے نقش، محبت اس کی
نور آنکھوں کا ہے، آنکھوں سے جدا کیسے ہو
جس کو جانا ہی نہیں، اس کو خدا کیوں مانیں
اور جسے جان چکے ہیں، وہ خدا کیسے ہو
شاید کوئی فسوں ہے تمہاری نگاہ میں
لذت سی پا رہا ہوں غمِ بے پناہ میں
اڑنے کے واسطے کسی جھونکے کے منتظر
بیٹھے ہوئے ہیں خاک کی مانند راہ میں
یادیں بھی ہیں امید بھی ہے بے بسی بھی ہے
اے دوست! کیا نہیں ہے ہماری نگاہ میں
ہم دو قدم بھی چل نہ سکے، خاکِ پا ہوئے
جو قافلے کے ساتھ گئے، جانے کیا ہوئے
آنکھوں میں ایک اشک سحر تک نہ آ سکا
کن حسرتوں کے ساتھ ستارے جدا ہوئے
دل کو شبِ طرب کی فضا یاد رہ گئی
لیکن وہ انتظار کے لمحات کیا ہوئے
یہ سوچ کر کہ تیری جبِیں پر نہ بل پڑے
بس دور ہی سے دیکھ لیا اور چل پڑے
دل میں پھر اک کسک سی اٹھی مدتوں کے بعد
اک عمر سے رکے ہوئے آنسو نکل پڑے
سینے میں بے قرار ہیں مردہ محبتیں
ممکن ہے یہ چراغ کبھی خود ہی جل پڑے
ممکن ہو آپ سے تو بھلا دیجئے مجھے
پتھر پہ ہوں لکِیر مٹا دیجئے مجھے
ہر روز مجھ سے تازہ شکایت ہے آپ کو
میں کیا ہوں، ایک بار بتا دیجئے مجھے
میرے سوا بھی ہے کوئی موضوعِ گفتگو
اپنا بھی کوئی رنگ دِکھا دیجئے مجھے
کبھی ان سے کبھی خود سے بھی غافل ہو گیا ہوں میں
دیارِ بے خودی میں اب تیرے قابل ہو گیا ہوں میں
سرِ محفل بہ اندازِ تغافل دیکھنے والے
تیری بے اعتنائی کا بھی قائل ہو گیا ہوں میں
بگولوں کی طرح اڑتا پِھرا ہوں شوقِ منزل میں
مگر منزل پہ آ کے خاکِ منزل ہو گیا ہوں میں
اب تلک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے
پھول باقی نہیں خوشبو کا سفر جاری ہے
دھیان بھی اس کا ہے، ملتے بھی نہیں ہیں اس سے
جسم سے بیر ہے، سایے سے وفاداری ہے
دل کو تنہائی کا احساس بھی باقی نا رہا
وہ بھی دھندلا گئی جو شکل بہت پیاری ہے
دل میں وہ آباد ہے جس کو کبھی چاہا نہ تھا
چور سے ڈرتے تھے لیکن گھر کا دروازہ نہ تھا
گرچہ وہ آباد ہے تارِ رگِ جاں کے قریب
ڈھونڈتے اس کو کہاں جس کو کہیں دیکھا نہ تھا
اب جہاں میں ہوں وہاں میرے سوا کچھ بھی نہیں
میں اسی صحرا میں رہتا تھا، مگر تنہا نہ تھا
سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ دل کی خُو کیا تھی
سفر تو آٹھ پہر کا تھا،۔۔ جستجو کیا تھی
وہ آبشار کے پانی سی طبع رکھتا تھا
مگر تھکے ہوئے لہجے کی گفتگو کیا تھی
ہوئی شکست، جہاں فتح کا یقین ہوا
کوئی چھپا ہوا دشمن تھا، آرزو کیا تھی
پرِیت بِنا جگ سُونا سُونا، پرِیت کیے دکھ ہوئے
جیون ہی جگ روگ بنا من جیسے چاہے روئے
آنکھ مچولی سی کھیلی ہے ساری ساری رات
سو سو کر ہم جاگ اٹھے اور جاگ جاگ کر سوئے
بوند بوند ہو ہو کے لہو سب انگ انگ سے ٹپکا
سیج سیج پر کانٹے ہم نے کروٹ کروٹ بوئے
دل فسردہ اسے کیوں گلے لگا نہ لیا
قریب رہ کے بھی جس نے تیرا پتا نہ لیا
بس ایک لمحے میں کیا کچھ گزر گئی دل پر
بحال ہوتے ہوئے ہم نے اک زمانہ لیا
تمام عمر ہوا پھانکتے ہوئے گزری
رہے زمیں پہ مگر خاک کا مزا نہ لیا
میرے ہمراہ منزل بھی رواں ہے
مسافر میں ہوں یا سارا جہاں ہے
حقیقت تک رسائی ہے کہاں ہے
یقیں جس کو سمجھتے ہو گُماں ہے
وہاں پہنچے جہاں جانا نہیں تھا
سفر جتنا کیا وہ رائیگاں ہے
حال اس کا تیرے چہرے پہ لِکھا لگتا ہے
وہ جو چپ چاپ کھڑا ہے تیرا کیا لگتا ہے
یوں تو ہر چیز سلامت ہے میری دنیا میں
ایک تعلق ہے جو ٹوٹا ہوا لگتا ہے
میں نے سوچا تھا کہ آباد ہوں اک شہر میں میں
یہاں تو ہر شخص کا انداز جدا لگتا ہے
مجھ سے تیرے حضور چھپایا نہ جا سکا
وہ ماجرائے غم کہ سنایا نہ جا سکا
تُو نے تو ہم کو بخش دیے دو جہاں کے غم
بارِ کرم ہمیں سے اٹھایا نہ جا سکا
ہیں جاں فزا زمانے کی رنگینیاں مگر
دل وہ دیار تھا کہ بھلایا نہ جا سکا
جس سے تُو بات کرے جو تِرا چہرہ دیکھے
پھر اسے شہر نظر آئے نہ صحرا دیکھے
روشنی وہ ہے کہ آنکھیں نہیں کھلنے پاتیں
اب تو شاید ہی کوئی ہو جو اجالا دیکھے
اس بھرے شہر میں کس کس سے کہوں حال اپنا
میری حالت تو کوئی دیکھنے والا دیکھے
اس در پہ جو سر بار کے روتا کوئی ہوتا
تُو بسترِ راحت پہ نہ سوتا، کوئی ہوتا
کس کا فلک اوّل و ہفتم کہ مِرا اشک
اِک آنکھ جھپکتے میں ڈبوتا کوئی ہوتا
یہ دل ہی تھا ناداں کہ تِری زُلف سے اُلجھا
یوں اپنے لیے خار نہ بوتا کوئی ہوتا
دم بدم، ساقی و مطرب کو صدا دیتے ہیں
موسمِ گُل میں ہم اِک دُھوم مچا دیتے ہیں
جنسِ دل آپ گراں سمجھے ہیں اِک بوسے پر
دھیان اتنا نہیں کیا لیتے ہیں، کیا دیتے ہیں
ہم وہ بسمل ہیں کہ ٹھنڈے نہیں ہوتے جب تک
دامنِ زخم سے قاتل کو ہوا دیتے ہیں
ہاں فرو سوز دل اِک دَم نہ ہُوا پر نہ ہُوا
اور گریہ سے بڑھا، کم نہ ہُوا پر نہ ہُوا
سُن کر احوالِ جگر سوز غریبِ عشق کا
ہائے افسوس، تجھے غم نہ ہُوا پر نہ ہُوا
کُشتہ از کے افسوس جنازے پہ ذرا
چشم پُرآب تُو اِک دم نہ ہُوا پر نہ ہُوا
کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا
کوئی یاں تک اُسے لایا تو ہوتا
مزہ رکھتا ہے زخمِ خنجرِ عشق
کبھی اے بُوالہوس! کھایا تو ہوتا
نہ بھیجا تُو نے لِکھ کر ایک پرچہ
ہمارے دل کو پرچایا تو ہوتا
بِکھر کے ٹوٹنے والے صدا نہیں کرتے
کوئی بھی کام خلافِ انا نہیں کرتے
شجر پہ بیٹھے ہوئے پنچھیوں سے بات کرو
فضا میں اڑتے پرندے سنا نہیں کرتے
گہر شناس ہیں طوفاں کے ساتھ رہتے ہیں
سمندروں سے عداوت کِیا نہیں کرتے
سائے پھیل جاتے ہیں درد رُت کے ڈھلنے سے
چہرہ کس کا بدلا ہے؟، آئینے بدلنے سے
جنگلوں کے سناٹے رُوح میں اترتے ہیں
خواہشوں کے موسم میں پافگار چلنے سے
خواب پھر سے جاگے ہیں نیم خواب آنکھوں میں
گھنٹیاں سی بجتی ہیں آرزو بدلنے سے
ہم خاک با سر ریت کے صحرا میں کھڑے ہیں
پیاسے ہیں مگر اپنے اصولوں پہ اَڑے ہیں
لے جائے کہیں بھی ہمیں سیلابِ محبت
ہم کب کسی طُوفان کے ریلوں سے ڈرے ہیں
ہم نے بھی کفن باندھ لیے اپنے سروں پر
سب تیر بھی اپنی کمانوں میں پڑے ہیں
کوئی بھی حرفِ دُعا اب اثر نہیں رکھتا
میرا خُدا بھی تو مُجھ پر نظر نہیں رکھتا
ہوا کو کس لئے بے چِہرگی کا صدمہ ہے
یہاں تو کوئی بھی شانوں پہ سر نہیں رکھتا
وہ دشتِ خواب ہو ویرانہ ہو کہ صحرا ہو
جنوں کی راہ میں حدِ سفر نہیں رکھتا