فرشتۂ محبت
جس گھر میں عورت نہیں ہے، وہاں محبت و شفقت نہیں ہے
جس کا دل مر جائے، اُس کی روح بھی مر جاتی ہے
تقدیر نے کہیں بھی مرد کو کامل اور عورت کو ناقص نہیں لکھا
عورت ازل ہی سے خانۂ ہستی کا ستون ہے
بنیاد کے بغیر کون کوئی عمارت بنا سکتا ہے؟
عورت اگر زندگی کے راستے میں چراغ بن کر نہ جلتی
تو کوئی بھی ان تاریک راہوں کی منزل تک نہ پہنچ پاتا
اگر عورت کوہسارِ وجود پر سورج بن کر نہ چمکتی
تو عشق کے جوہری کو کان سے کوئی موتی نہ ملتا
عورت پیدائشی فرشتہ ہے
یہ وہ فرشتہ ہے جس پر شیطان طعنہ زنی کرتا ہے
اگر افلاطون اور سُقراط عظیم ہیں
تو ان کو پالنے والی عظیم تر ہے
لُقمان بچپن میں ماں کی گود میں بہت سویا
پھر دبستانِ حکمت میں پہنچا اور دانشور بنا
پہلوان ہو یا صوفی زاہد ہو یا فقیر
سب اسی مدرسے کے شاگرد ہیں
بِن ماں کا بچہ محبت کی بات کہاں سے سیکھتا ہے؟
بادشاہ کے بغیر کسی سلطنت میں امن و امان اور نظم وضبط کہاں ہوتا ہے؟
اے دانشمند! تم جانتے ہو کہ عورت اور مرد کا فریضہ کیا ہے؟
ایک کشتی ہے اور دوسرا کشتی بان
نا خدا سمجھدار اور کشتی مضبوط ہو
تو موجوں، بھنور اور طوفان کا کیا ڈر؟
حادثاتِ زمانہ کے سمندر میں، مصیبت کے دن
دونوں ہی سے سعی و عمل کی توقع ہوتی ہے
جو آج بیٹی ہے، وہی کل ماں بنے گی
بیٹوں کی عظمت ماں ہی سے وابستہ ہے
اگر اچھی عورتیں رفُو نہ کر سکتیں
تو اچھے مردوں کے لباس پھٹے رہتے
مرد کا زادِ سفر کیا ہے؟ عورت کا ساتھ
عورت کا سرمایہ کیا ہے؟ بچوں کی محبت
اچھی عورت صرف گھر کی مالکہ ہی نہیں ہوتی
طبیب نرس، حاکم اور دربان بھی ہوتی ہے
اچھے دنوں میں محبت کرنے والی رفیق
اور بُرے دنوں میں خیر خواہ اور سہارہ دینے والی
عقل مند عورت کسی کمی بیشی کی وجہ سے ناراض نہیں ہوتی
اچھا مرد بُری باتوں سے زبان آلودہ نہیں کرتا
زندگی کا گھوڑا جب سرکشی پر اُتر آتا ہے
تو کبھی مرد اس کو لگام دیتا ہے تو کبھی عورت
مرد ہو یا عورت، عظمت اور کامیابی اس کو ملتی ہے
جس کے دامن میں باغِ علم کے پھل ہوں
بازار ہُنر اور کارگاہِ دانش میں
بہت ہی ساز و سامان ہے، چلو کہ اس کی تجارت کریں
جس عورت نے تعلیم و تربیت کا گوہر نہ خریدا
اس نے اپنی عمر عزیز کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دی
زندہ کہلوانے کی مستحق وہی ہے جس نے لباسِ فضل زیبِ تن کیا ہو
وہ نہیں کہ جس کی قدر و منزلت ہی نہ ہو
آسمان نے ہمیں معانی کے ہزاروں دفتر دئیے
ہم نے ایک کے سوا سب پھاڑ ڈالے
جب دبستانِ خِرد کھلا تو ہم کھیل کود میں لگ گئیں
جب فن نے جلوہ گری کی تو ہم چُھپ گئیں
خُود پرستی اور سُستی کے شیطان کی بساط
فنا نہ ہوئی تو ہماری خیر نہیں
ہمارا وقت ہمیشہ انہی باتوں میں ضائع ہو گیا
کہ فلاں کپڑے کا یہ نرخ تھا اور فلاں جوتے کا یہ
ہم نے جسم کے لیے غرور کا زیور خریدا
ہم نے رُوح کے لیے لباسِ خسارہ سِیا
تکبّر میں ہماری رُوح کی دُکان کا سامان گل سڑ گیا
جسم کے لیے ہم نے ہر طرف دُکانیں کھول لیں
یہ رویہ، سر بلندی نہیں، خرابی ہے
یہ سوچ، عزت نہیں، ذِلت ہے
ہم سبزہ نہیں ہیں کہ یونہی ندی نالوں کے کنارے آ گئیں
نہ پرندہ ہیں کہ مُٹھی بھر دانے دُنکے پہ خُوش رہیں
جب ہم اپنے موٹے جُھوٹے کپڑے پر قناعت کر لیں تو پھر کیا غم
کہ حلب کا چُغہ سستا ہے یا مہنگا؟
اغیار کے بنے ہوئے ریشم سے اپنا ٹاٹ ہزار بار بہتر ہے
قبائے علم سے زیادہ قیمتی ملبوس کون سا ہے؟
دُنیائے عرفان سے بہتر کون سا ریشمی کپڑا ہے؟
عقل کے چرخے کی ہر انٹی
عزم و ہمت کی کارگاہ میں ریشم بن جاتی ہے
گوشوارے، گلُو بند اور مرجان کے کنگن کی وجہ سے
اپنے آپ کو برتر سمجھنے والی عورت، عورت نہیں ہے
چہرے پر فضل و کمال کا غازہ ہی نہیں ہے
تو زربفت کے کپڑوں کے رنگ اور زیورات کی چمک کا کیا فائدہ؟
پروین! اچھی عورت کی گردن اور ہاتھوں کی شایان شان
علم کے موتی ہیں، نہ کہ ہیرے، جواہر
شاعرہ: پروین اعتصامی
اردو ترجمہ: معین نظامی
No comments:
Post a Comment