Monday, 22 April 2024

بقا صدف کی گہر کے سوا کچھ اور نہیں

بقا صدف کی گہر کے سوا کچھ اور نہیں 

وفا شعور بشر کے سوا کچھ اور نہیں 

غلط غلط کہ محبت فریب ہستی ہے 

یہ ربط خاص اثر کے سوا کچھ اور نہیں 

ابھی جنوں کو گزرنا ہے شاہراہوں سے 

جنوں کی حد تِرے در کے سوا کچھ اور نہیں 

یہی نظام جہاں ہے یہی ہے راز بقاء

ثمر حیات شجر کے سوا کچھ اور نہیں 

تجھے خرد سے ہے نسبت ہمیں عزیز جنوں 

بقدر ظرف نظر کے سوا کچھ اور نہیں 


عزیز بدایونی

No comments:

Post a Comment