بادہ نوشی میں ہیں یکتا یہی سمجھانے کو
ایک پیمانے میں بھر لیتے ہیں مے خانے کو
رات ضائع ہی گئی، لفظ بھی بے کار گئے
جب کوئی سمجھا نہیں آپ کے افسانے کو
کیسے دیوانے ہیں یہ لوگ میری بستی کے
کیوں یہ دیوانہ کہا کرتے ہیں دیوانے کو
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
ہاں بہت اچھا ہے پر دل کے ہے بہلانے کو
خود ابھی نونِ نصیحت سے بھی آگاہ نہیں
بن کے ناصح جو چلے آئیں ہیں سمجھانے کو
پھر اناالحق کی صدا دینی پڑے گی کہ یہاں
کوئی تیار نہیں دار پہ چڑھ جانے کو
ہم بھی منزل پہ پہنچ جاتے کبھی کے صائب
راہ میں بیٹھ گئے ہوتے جو سستانے کو
صائب جعفری
No comments:
Post a Comment