جس پہ روئے خود آگہی اس کی
ہر خوشی ہے نمائشی اس کی
اک نیا ضابطہ جنم دے گی
ہر روایت سے سرکشی اس کی
وقت پر آج بھی نہیں آیا
موڑ دوں گا اسے گھڑی اس کی
رابطہ زندگی سے کٹنے لگا
اور پھر کال آ گئی اس کی
عہد و پیماں سے باندھ لینا تھا
دفعتاً ریل چل پڑی اس کی
گونجنے لگ گئی سماعت میں
شبِ تنہائی ان کہی اس کی
وقت نے یوں بدل دیا جاذب
اس پہ تصویر ہنس پڑی اس کی
اکرم جاذب
No comments:
Post a Comment