Saturday 20 April 2024

جس پہ روئے خود آگہی اس کی

 جس پہ روئے خود آگہی اس کی

ہر خوشی ہے نمائشی اس کی

اک نیا ضابطہ جنم دے گی

ہر روایت سے سرکشی اس کی

وقت پر آج بھی نہیں آیا

موڑ دوں گا اسے گھڑی اس کی

رابطہ زندگی سے کٹنے لگا

اور پھر کال آ گئی اس کی

عہد و پیماں سے باندھ لینا تھا

دفعتاً ریل چل پڑی اس کی

گونجنے لگ گئی سماعت میں

شبِ تنہائی ان کہی اس کی

وقت نے یوں بدل دیا جاذب

اس پہ تصویر ہنس پڑی اس کی


اکرم جاذب

No comments:

Post a Comment