چاند سے، نور سے، شبنم سے، صبا سے، گل سے
اپنی امید کے چہروں سے محبت کی ہے
بزمِ جاناں کا تصور بھی سرِ دار رہا
ہم دِوانوں نے اشاروں سے محبت کی ہے
غنچۂ زخمِ،جگر، شبنمِ چشمِ نرگِس
عمر بھر ہم نے بہاروں سے محبت کی ہے
زندگی زہر سہی، اہلِ سفر چور سہی
یار لوگوں نے سہاروں سے محبت کی ہے
اجمل خٹک
No comments:
Post a Comment