Friday 19 April 2024

غمگساری دوست مایوس نہ ہو

غمگساری


دوست مایوس نہ ہو

سلسلے بنتے بگڑتے ہی رہے ہیں اکثر

تیری پلکوں پہ یہ اشکوں کے ستارے کیسے

تجھ کو غم ہے تری محبوب تجھے مل نہ سکی

اور جو زیست تراشی تھی ترے خوابوں نے

جب پڑی چوٹ حقائق کی تو وہ ٹوٹ گئی

تجھ کو معلوم ہے میں نے بھی محبت کی تھی

اور انجام محبت بھی ہے معلوم تجھے

تجھ سے پہلے بھی بجھے ہیں یہاں لاکھوں ہی چراغ

تیری ناکامی نئی بات نہیں دوست میرے

کس نے پائی ہے غم زیست کی تلخی سے نجات

چار و ناچار یہ زہراب سبھی پیتے ہیں

جاں لٹا دینے کے فرسودہ فسانوں پہ نہ جا

کون مرتا ہے محبت میں سبھی جیتے ہیں

وقت ہر زخم کو ہر غم کو مٹا دیتا ہے

وقت کے ساتھ یہ صدمہ بھی گزر جائے گا

اور یہ باتیں جو دہرائی ہیں میں نے اس وقت

تو بھی اک روز انہی باتوں کو دہرائے گا

دوست مایوس نہ ہو

سلسلے بنتے بگڑتے ہی رہے ہیں اکثر


احمد راہی 

No comments:

Post a Comment