زعفرانی غزل
کیا بچے سلجھے ہوتے ہیں
جب گیند سے الجھے ہوتے ہیں
وہ اس لیے مجھ کو بھاتے ہیں
دن بیتے یاد دلاتے ہیں
وہ کتنے حسین بسیرے تھے
جب دور غموں سے ڈیرے تھے
جو کھیل میں حائل ہوتا تھا
نفرین کے قابل ہوتا تھا
ہر اک سے الجھ کر رہ جانا
رک رک کے بہت کچھ کہہ جانا
ہنس دینا باتوں باتوں پر
برسات کی کالی راتوں پر
بادل کی سبک رفتاری پر
بلبل کی آہ و زاری پر
اور شمع کی لو کی گرمی پر
پروانوں کی ہٹ دھرمی پر
دنیا کے دھندے کیا جانیں
آزاد یہ پھندے کیا جانے
معصوم فضا میں رہتے تھے
ہم تو یہ سمجھ ہی بیٹھے تھے
خوشیوں کا الم انجام نہیں
دنیا میں خزاں کا نام نہیں
ماحول نے کھایا پھر پلٹا
ناگاہ تغیر آ جھپٹا
اور اس کی کرم فرمائی سے
حالات کی اک انگڑائی سے
آ پہنچے ایسے بیڑوں میں
جو لے گئے ہمیں تھپیڑوں میں
بچپن کے سہانے سائے تھے
سائے میں ذرا سستائے تھے
وہ دور مقدس بیت گیا
یہ وقت ہی بازی جیت گیا
اب ویسے میرے حالات نہیں
وہ چیز نہیں وہ بات نہیں
جینے کا سفر اب دو بھر ہے
ہر گام پہ سو سو ٹھوکر ہے
وہ دل جو روح قرینہ تھا
آشاؤں کا اک حزینہ تھا
اس دل میں نہاں اب نالے ہیں
تاروں سے زیادہ چھالے ہیں
جو ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے
رونے کو چھپانا ہوتا ہے
کوئی غنچہ دل میں کھلتا ہے
تھوڑا سا سکوں جب ملتا ہے
غم تیز قدم پھر بھرتا ہے
خوشیوں کا تعاقب کرتا ہے
میں چوچتا رہتا ہوں یوں ہی
آخر یہ تفاوت کیا معنی
یہ سوچ عجب تڑپاتی ہے
آنکھوں میں نمی بھر جاتی ہے
پھر مجھ سے دل یہ کہتا ہے
ماضی کو تو روتا رہتا ہے
کچھ آہیں دبی سی رہنے دے
کچھ آنسو ابھی رہنے دے
یہ حال بھی ماضی ہونا ہے
اس پر بھی تجھے کچھ رونا ہے
انور مسعود
No comments:
Post a Comment