Tuesday, 16 April 2024

کیا بچے سلجھے ہوتے ہیں جب گیند سے الجھے

 زعفرانی غزل


کیا بچے سلجھے ہوتے ہیں

جب گیند سے الجھے ہوتے ہیں

وہ اس لیے مجھ کو بھاتے ہیں

دن بیتے یاد دلاتے ہیں

وہ کتنے حسین بسیرے تھے

جب دور غموں سے ڈیرے تھے

جو کھیل میں حائل ہوتا تھا

نفرین کے قابل ہوتا تھا

ہر اک سے الجھ کر رہ جانا

رک رک کے بہت کچھ کہہ جانا

ہنس دینا باتوں باتوں پر

برسات کی کالی راتوں پر

بادل کی سبک رفتاری پر

بلبل کی آہ و زاری پر

اور شمع کی لو کی گرمی پر

پروانوں کی ہٹ دھرمی پر

دنیا کے دھندے کیا جانیں

آزاد یہ پھندے کیا جانے

معصوم فضا میں رہتے تھے

ہم تو یہ سمجھ ہی بیٹھے تھے

خوشیوں کا الم انجام نہیں

دنیا میں خزاں کا نام نہیں

ماحول نے کھایا پھر پلٹا

ناگاہ تغیر آ جھپٹا

اور اس کی کرم فرمائی سے

حالات کی اک انگڑائی سے

آ پہنچے ایسے بیڑوں میں

جو لے گئے ہمیں تھپیڑوں میں

بچپن کے سہانے سائے تھے

سائے میں ذرا سستائے تھے

وہ دور مقدس بیت گیا

یہ وقت ہی بازی جیت گیا

اب ویسے میرے حالات نہیں

وہ چیز نہیں وہ بات نہیں

جینے کا سفر اب دو بھر ہے

ہر گام پہ سو سو ٹھوکر ہے

وہ دل جو روح قرینہ تھا

آشاؤں کا اک حزینہ تھا

اس دل میں نہاں اب نالے ہیں

تاروں سے زیادہ چھالے ہیں

جو ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے

رونے کو چھپانا ہوتا ہے

کوئی غنچہ دل میں کھلتا ہے

تھوڑا سا سکوں جب ملتا ہے

غم تیز قدم پھر بھرتا ہے

خوشیوں کا تعاقب کرتا ہے

میں چوچتا رہتا ہوں یوں ہی

آخر یہ تفاوت کیا معنی

یہ سوچ عجب تڑپاتی ہے

آنکھوں میں نمی بھر جاتی ہے

پھر مجھ سے دل یہ کہتا ہے

ماضی کو تو روتا رہتا ہے

کچھ آہیں دبی سی رہنے دے

کچھ آنسو ابھی رہنے دے

یہ حال بھی ماضی ہونا ہے

اس پر بھی تجھے کچھ رونا ہے


انور مسعود

No comments:

Post a Comment