عمر کا نوحہ سنا جاتی ہے روز
دن کے بعد اک رات آ جاتی ہے روز
خواب کی تکمیل ہوتی ہے نہیں
نیند اک پتہ گِرا جاتی ہے روز
اک خوشی مشکل سے ملتی ہے کہیں
اک نظر اُس کو بھی کھا جاتی ہے روز
بُھولنا چاہوں اُسے تو اُس کی یاد
دل میں اک رستہ بنا جاتی ہے روز
ایک میلہ ہے گزرگاہِ خیال
ایک خلقت ہے کہ آ جاتی ہے روز
روز اک صحرا بُلاتا ہے شہاب
دل میں اک وحشت سما جاتی ہے روز
شہاب الدین شہاب
No comments:
Post a Comment