منزل شناس تھے جو مسافر، ٹہر رہے
جینا تھا جن کو وہ تِرے کوچے میں مر رہے
اب بے خبر رہے کوئی یا باخبر رہے
قسمت میں جن غریبوں کی مرنا تھا، مر رہے
سب جانتے ہیں موت نہیں اختیار میں
اب کیا کریں نہ قابلِ پرواز پَر رہے
تھرّا رہا ہے دل شبِ فرقت کے نام سے
اللہ، آج رات نہ آئے، سحر رہے
آماجگاہِ رنج ہے حسرت سراے دل
آ آ کے قافلے سرِ منزل ٹہر رہے
وہ آ کے دل کو باتوں ہی باتوں میں لے گئے
ان کا نہیں قصور ہمیں بے خبر رہے
حامد نہ روئیں گے یہ تہیہ تو کر لیا
کیا کیجیے گا دل پہ نہ قابو اگر رہے
مرزا حامد لکھنوی
No comments:
Post a Comment