منزل پہ تِری ذات کی تسخیر سے پہنچا
میں خواب تلک خواب کی تعبیر سے پہنچا
اب اس کے خسارے کو یہاں کون بھرے گا
نقصان عمارت کو جو تعمیر سے پہنچا
آواز میں سختی ہے فقط اس کے سبب سے
مجھ تک یہ تکبر مِری جاگیر سے پہنچا
اس بار محبت میں ندامت بھی ملی ہے
اس بات کا دکھ بات کی تشہیر سے پہنچا
حیران ہوں اس درجہ عقیدت پہ عزیزاں
اک شخص کہ مجھ تک مِری تصویر سے پہنچا
کامران صالح
No comments:
Post a Comment