Wednesday 24 April 2024

خیال یار کا روشن جو ہے دیا نہ بجھا

  خیالِ یار کا روشن جو ہے دِیا نہ بُجھا

رہِ حیات میں اس سے ہی ہے ضیا نہ بجھا

جو پیاس ہی ہے مقدر مِرا، تو پھر ساقی

پیالہ رہنے دے یہ تشنگی بڑھا نہ بجھا

شبِ وصال ہے، دم لے ذرا نمودِ سحر

ٹھہر، ابھی سے ستاروں کا سلسلہ نہ بجھا

کبھی لگائی تھی تو نے جو دیدہ و دل میں

ہے اختیار تجھے آگ یہ بجھا نہ بجھا

بتا دو اس کو کہ ہر دور کے خداؤں نے

بجھایا لاکھ مگر شعلۂ نوا نہ بجھا


سجاد سید

No comments:

Post a Comment