سقراط
پتھر کاٹنے والے کو معلوم نہیں تھا
اپنا آپ ہی سب سے بھاری پتھر ہے
جسم کا پتھر کٹ جائے تو رستہ بہتر کٹ جاتا ہے
ڈھیروں پتھر کاٹ کاٹ کے
وہ روز و شب کاٹ رہا تھا
اُس کو یہ معلوم نہیں تھا اس کا بیٹا
پھٹی ہوئی پوشاک میں چھُپ کر
ایسا مرمر کاٹ رہا ہے
جس کے کٹتے ہی زنجیریں کٹ جاتی ہیں
جو کہتا تھا، سارے رستے اپنے اندر سے آتے ہیں
راہیں کھولو، پتھر کاٹو، اپنا آپ تراشو
تم اپنی تعظیم کے رُخ سے دیکھ کے دیکھو
تم اونچے ہو
اور خداؤں والا پربت نیچا ہے
انجانے میں مانتے جانے سے اچھا ہے
کچھ مت مانو
بِن جانے سب مانتے ہو تو عقل پہ پتھر پڑ جاتے ہیں
وقت کے گہرے سناٹے سے
تُند سوال کا اک کنکر ٹکرا جائے تو
لاکھ جواب اُبھر آتے ہیں
دیکھتے دیکھتے مٹ جاتے ہیں
ایک سوال نہیں مٹتا ہے
اور پھر اک دن
پتھر آنکھیں دیکھ رہی تھیں
سنگ تراش کا بیٹا
اک آتش سیال کی دھار سے
اپنے آپ کو کاٹ رہا تھا
لاکھوں رستے بہہ نکلے تھے
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment