Monday, 15 April 2024

سقراط پتھر کاٹنے والے کو معلوم نہیں تھا

 سقراط

پتھر کاٹنے والے کو معلوم نہیں تھا

اپنا آپ ہی سب سے بھاری پتھر ہے

جسم کا پتھر کٹ جائے تو رستہ بہتر کٹ جاتا ہے

ڈھیروں پتھر کاٹ کاٹ کے

وہ روز و شب کاٹ رہا تھا

اُس کو یہ معلوم نہیں تھا اس کا بیٹا

پھٹی ہوئی پوشاک میں چھُپ کر

ایسا مرمر کاٹ رہا ہے

جس کے کٹتے ہی زنجیریں کٹ جاتی ہیں

جو کہتا تھا، سارے رستے اپنے اندر سے آتے ہیں

راہیں کھولو، پتھر کاٹو، اپنا آپ تراشو

تم اپنی تعظیم کے رُخ سے دیکھ کے دیکھو

تم اونچے ہو

اور خداؤں والا پربت نیچا ہے

انجانے میں مانتے جانے سے اچھا ہے

کچھ مت مانو

بِن جانے سب مانتے ہو تو عقل پہ پتھر پڑ جاتے ہیں

وقت کے گہرے سناٹے سے

تُند سوال کا اک کنکر ٹکرا جائے تو

لاکھ جواب اُبھر آتے ہیں

دیکھتے دیکھتے مٹ جاتے ہیں

ایک سوال نہیں مٹتا ہے

اور پھر اک دن

پتھر آنکھیں دیکھ رہی تھیں 

سنگ تراش کا بیٹا

اک آتش سیال کی دھار سے

اپنے آپ کو کاٹ رہا تھا

لاکھوں رستے بہہ نکلے تھے


شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment