یوں محبت سے مجھے میرا جنوں دیکھتا ہے
جیسے اک باپ مَرے بیٹے کا منہ دیکھتا ہے
خوف و امید کی تخلیط سے تکتا ہوں تجھے
سر کٹے جسم کو جوں کھولتا خوں دیکھتا ہے
پہلے تصویر بناتا ہے کسی قبر کی پھر
لکھ کے پہلو میں وہ اٹھ یار میں ہوں دیکھتا ہے
میں تو اس دن سے تجھے دیکھ رہا ہوں یا رب
ماں نے جس دن سے بتایا ہے کہ تو دیکھتا ہے
تجھ کو تعبیر کی قیمت نہیں معلوم تو پھر
تو محبت کا کوئی خواب بھی کیوں دیکھتا ہے
شہر کا شہر چلن میرا بتاتا ہے مجھے
شاذ و ناذر ہی کوئی اپنے دروں دیکھتا ہے
تُو بھی نس نس میں مچا شور نہیں سُنتا یار
تُو بھی بس چہرے پہ منڈلاتا سکوں دیکھتا ہے
ہول آتا ہے تِری آنکھ کی وحشت سے مجھے
کوئی پہلے سے ڈرے شخص کو یوں دیکھتا ہے
پہلے دروازے کو چنگھاڑتے سُنتا ہے شفیق
ڈر کے اُٹھتا ہے تو دیواریں لہو دیکھتا ہے
نعمان شفیق
No comments:
Post a Comment