زعفرانی غزل
آن لائن عاشق
نیٹ ایجاد ہوا ہجر کے ماروں کے لیے
سرچ انجن ہے بڑی چیز کنواروں کے لیے
جس کو صدمہ شب تنہائی کے ایام کا ہے
ایسے عاشق کے لیے نیٹ بہت کام کا ہے
نیٹ فرہاد کو شیریں سے ملا دیتا ہے
عشق انسان کو گوگل پہ بٹھا دیتا ہے
کام مکتوب کا ماؤس سے لیا جاتا ہے
آہ سوزاں کو بھی اپلوڈ کیا جاتا ہے
ٹیکسٹ میں لوگ محبت کی خطا بھیجتے ہیں
گھر بتاتے نہیں آفس کا پتا بھیجتے ہیں
عاشقوں کا یہ نیا طور نیا ٹائپ ہے
پہلے چلمن ہوا کرتی تھی اب اسکائپ ہے
عشق کہتے ہیں جسے اک نیا سمجھوتہ ہے
پہلے دل ملتے تھے اب نام کلک ہوتا ہے
دل کا پیغام جب ای میل سے مل جاتا ہے
میل ہر چوک پہ فی میل سے مل جاتا ہے
عشق کا نام فقط آہ و فغاں تھا پہلے
ڈاک خانے میں یہ آرام کہاں تھا پہلے
آئی ڈی جب سے ملی ہے مجھے ہمسائی کی
اچھی لگتی ہے طوالت شب تنہائی کی
نیٹ پہ لوگ جو نوے سے پلس ہوتے ہیں
بیٹھے رہتے ہیں وہ ٹس ہوتے نہ مس ہوتے ہیں
فیس بک کوچۂ جاناں سے ہے ملتی جلتی
ہر حسینہ یہاں مل جائے گی ہلتی جلتی
یہ موبائل کسی عاشق نے بنایا ہو گا
اس کو محبوب کے ابا نے ستایا ہو گا
ٹیکسٹ جب عاشق برقی کا اٹک جاتا ہے
طالب شوق تو سولی پہ لٹک جاتا ہے
آن لائن ترے عاشق کا یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
خالد عرفان
No comments:
Post a Comment