Friday 19 April 2024

نیٹ ایجاد ہوا ہجر کے ماروں کے لیے

 زعفرانی غزل

آن لائن عاشق


نیٹ ایجاد ہوا ہجر کے ماروں کے لیے 

سرچ انجن ہے بڑی چیز کنواروں کے لیے 

جس کو صدمہ شب تنہائی کے ایام کا ہے 

ایسے عاشق کے لیے نیٹ بہت کام کا ہے 

نیٹ فرہاد کو شیریں سے ملا دیتا ہے 

عشق انسان کو گوگل پہ بٹھا دیتا ہے

کام مکتوب کا ماؤس سے لیا جاتا ہے 

آہ سوزاں کو بھی اپلوڈ کیا جاتا ہے 

ٹیکسٹ میں لوگ محبت کی خطا بھیجتے ہیں 

گھر بتاتے نہیں آفس کا پتا بھیجتے ہیں

عاشقوں کا یہ نیا طور نیا ٹائپ ہے

پہلے چلمن ہوا کرتی تھی اب اسکائپ ہے

عشق کہتے ہیں جسے اک نیا سمجھوتہ ہے

پہلے دل ملتے تھے اب نام کلک ہوتا ہے

دل کا پیغام جب ای میل سے مل جاتا ہے

میل ہر چوک پہ فی میل سے مل جاتا ہے

عشق کا نام فقط آہ و فغاں تھا پہلے

ڈاک خانے میں یہ آرام کہاں تھا پہلے

آئی ڈی جب سے ملی ہے مجھے ہمسائی کی

اچھی لگتی ہے طوالت شب تنہائی کی

نیٹ پہ لوگ جو نوے سے پلس ہوتے ہیں

بیٹھے رہتے ہیں وہ ٹس ہوتے نہ مس ہوتے ہیں

فیس بک کوچۂ جاناں سے ہے ملتی جلتی

ہر حسینہ یہاں مل جائے گی ہلتی جلتی

یہ موبائل کسی عاشق نے بنایا ہو گا

اس کو محبوب کے ابا نے ستایا ہو گا

ٹیکسٹ جب عاشق برقی کا اٹک جاتا ہے

طالب شوق تو سولی پہ لٹک جاتا ہے

آن لائن ترے عاشق کا یہی طور سہی

تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی


خالد عرفان

No comments:

Post a Comment