Monday 22 April 2024

تمام شہر میں تیرہ شبی کا چرچا تھا

 تمام شہر میں تیرہ شبی کا چرچا تھا

یہ اور بات کہ سورج افق پہ نکلا تھا

عجیب وجہ ملاقات تھی مِری اس سے

کہ وہ بھی میری طرح شہر میں اکیلا تھا

میں سب سمجھتی رہی اور مسکراتی رہی

مِرا مزاج ازل سے پیمبروں سا تھا

میں اس کو کھو کے بھی اس کو پکارتی ہی رہی

کہ سارا ربط تو آواز کے سفر کا تھا

میں گل پرست بھی گل سے نباہ کر نہ سکی

شعور ذات کا کانٹا بہت نکیلا تھا

سب احتساب میں گم تھے ہجوم یاراں میں

خدا کی طرح مِرا جرم عشق تنہا تھا

وہ تیرے قرب کا لمحہ تھا یا کوئی الہام

کہ اس کے لمس سے دل میں گلاب کھلتا تھا

مجھے بھی میرے خدا کلفتوں کا اجر ملے

تجھے زمیں پہ بڑے کرب سے اتارا تھا


منصورہ احمد

No comments:

Post a Comment