رگوں سے یاد کا نیلا لہو نچوڑتا ہوں
میں باغِ ہجر سے ہر شام پھول توڑتا ہوں
یہ اور بات کبھی جاگتے نہیں ہیں ہم
اُسے ہلاتا ہوں، خود کو کبھی جھنجوڑتا ہوں
کوئی بھی چاہے تو آسانی سے چھڑا لے جائے
اب ایک ہاتھ پکڑتا ہوں ایک چھوڑتا ہوں
یہ گرد باد مجھے ہی تباہ کرتا نہیں
میں اپنا رُخ کبھی اُس کی طرف بھی موڑتا ہوں
ہوائے صبح کی آہٹ سے ٹوٹ جاتی ہے
وہ شام جس کو میں لمحہ بہ لمحہ جوڑتا ہوں
بھلے فسردگی پہلے سے بھر چکی ہو مگر
میں آبلہ سرِ نوکِ وصال پھوڑتا ہوں
وہ ایک سست قدم شخص ہاتھ آ نہ سکا
اگرچہ کہنے کو میں کتنا تیز دوڑتا ہوں
سعید شارق
No comments:
Post a Comment