اک نظر دیکھیں تِرے لب، ایک پیمانے کو ہم
"دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم"
تشنگی بُجھتی کہاں ہے ساغر و مِینا سے پھر
جب سبو پلکیں تِری ہوں، جام چھلکانے کو ہم
گر پلانی ہے مجھے آنکھوں سے تُو نے ساقیا
کیوں بھلا پھر مُڑ کے دیکھیں، آج پیمانے کو ہم
گھر سے نکلے تھے فقط وحشت سے گھبرا کر مگر
بے خودی میں بُھول بیٹھے یار کاشانے کو ہم
دل بہلتا ہی نہیں اب صرف باتوں سے عمر
کیسے سمجھائیں بتا! اب ایسے دیوانے کو ہم
عمر یعقوب
No comments:
Post a Comment