یہ اقامت ہمیں پیغام سفر دیتی ہے
زندگی موت کے آنے کی خبر دیتی ہے
زال دنیا ہے عجب طرح کی علامۂ دہر
مرد دیں دار کو بھی دہریہ کر دیتی ہے
بڑھتی جاتی ہے جو مشق ستم اس ظالم کی
کچھ محبت مری اصلاح مگر دیتی ہے
فائدہ دے ترے بیمار کو کیا خاک دوا
اب تو اکسیر بھی دیجے تو ضرر دیتی ہے
شمع گھبرا نہ شب غم سے کہ کوئی دم میں
تجھ کو کافور سفیدی سحر دیتی ہے
غنچہ ہنستا ہے ترے آگے جو گستاخی سے
چٹخنا منہ پہ وہیں باد سحر دیتی ہے
شمع بھی کم نہیں کچھ عشق میں پروانے سے
جان دیتا ہے اگر وہ تو یہ سر دیتی ہے
دم بہ دم زخم پہ اک زخم ہے دم لینے کی
مجھ کو فرصت نہیں وہ تیغ نظر دیتی ہے
کہتے سنتے نہیں کچھ ہم تو شب ہجر میں پر
نالۂ دل کا جواب آہ جگر دیتی ہے
تیرہ بختی مری کرتی ہے پریشاں مجھ کو
تہمت اس زلف سیہ فام پہ دھر دیتی ہے
نخل مژگاں سے ہے کیا جانیے کیا چشم ثمر
چشم پانی کی جگہ خون جگر دیتی ہے
دیتی شربت ہے کسے زہر بھری آنکھ تری
عین احسان ہے وہ زہر بھی گر دیتی ہے
کوئی غماز نہیں میری طرف سے اے ذوق
کان اس کے مری فریاد ہی بھر دیتی ہے
ابراہیم ذوق
No comments:
Post a Comment