Sunday 21 April 2024

یہ اقامت ہمیں پیغام سفر دیتی ہے

 یہ اقامت ہمیں پیغام سفر دیتی ہے 

زندگی موت کے آنے کی خبر دیتی ہے 

زال دنیا ہے عجب طرح کی علامۂ دہر 

مرد دیں دار کو بھی دہریہ کر دیتی ہے 

بڑھتی جاتی ہے جو مشق ستم اس ظالم کی 

کچھ محبت مری اصلاح مگر دیتی ہے 

فائدہ دے ترے بیمار کو کیا خاک دوا 

اب تو اکسیر بھی دیجے تو ضرر دیتی ہے 

شمع گھبرا نہ شب غم سے کہ کوئی دم میں 

تجھ کو کافور سفیدی سحر دیتی ہے 

غنچہ ہنستا ہے ترے آگے جو گستاخی سے 

چٹخنا منہ پہ وہیں باد سحر دیتی ہے 

شمع بھی کم نہیں کچھ عشق میں پروانے سے 

جان دیتا ہے اگر وہ تو یہ سر دیتی ہے 

دم بہ دم زخم پہ اک زخم ہے دم لینے کی 

مجھ کو فرصت نہیں وہ تیغ نظر دیتی ہے 

کہتے سنتے نہیں کچھ ہم تو شب ہجر میں پر 

نالۂ دل کا جواب آہ جگر دیتی ہے 

تیرہ بختی مری کرتی ہے پریشاں مجھ کو 

تہمت اس زلف سیہ فام پہ دھر دیتی ہے 

نخل مژگاں سے ہے کیا جانیے کیا چشم ثمر 

چشم پانی کی جگہ خون جگر دیتی ہے 

دیتی شربت ہے کسے زہر بھری آنکھ تری 

عین احسان ہے وہ زہر بھی گر دیتی ہے 

کوئی غماز نہیں میری طرف سے اے ذوق 

کان اس کے مری فریاد ہی بھر دیتی ہے


ابراہیم ذوق

No comments:

Post a Comment