اجنبی کہکشائیں نمایاں ہوئیں اجنبی رات میں
پھُول چُنتی ہوئی لڑکیاں ہنس پڑیں دُور باغات میں
صبح دم ساحلوں پر ہوا نے لکھے گیت برسات کے
چاند کو گود میں بھر کے ناچے سمندر مدارات میں
ابر کی پہلی بُوندیں گریں آپ کی ادھ کھلی آنکھ میں
ادھ کھلی سیپیاں ساحلوں پر ترستی رہیں ساتھ میں
شام ہونے سے پہلے کوئی بالکونی میں موجود تھا
آنکھ میں اس حسیں کے ستارے تھے اور پھُول تھے ہاتھ میں
جل پری دیوکو دیوتا مان کر مت یہ نقصان کر
ہم تو بھُولے نہیں آج بھی تجھ کو اپنی مناجات میں
یوں نہ اس خواب گاہِ پراسرار کی آگ شعروں میں بھر
راکھ کر دے گی جنگل کے جنگل یہ وحشی خیالات میں
تو یہ ثابت ہوا اب ہوس ہے، محبت نہیں ہے ہمیں
جیت جیسا مزا اس لیے ہی نہیں آ رہا مات میں
رفتگاں کے خدوخال خوابوں کی خورجین میں ہیں ابھی
آج رؤیا میں ملتے ہیں کل کو ملیں گے روایات میں
معذرت دوستو!، درگزر اقرباء! شکریہ جانِ جاں
مُدتوں بعد یہ کم تکلّم ہے پھر آج جذبات میں
عدنان بشیر
No comments:
Post a Comment