Friday 19 April 2024

رعنائی وہ گل میں ہے نہ برنائی سحر میں

 رعنائی وہ گل میں ہے نہ برنائی سحر میں

اک بات ہے جو آپ کی دُزدیدہ نظر میں

معلوم یہ ہوتا ہے نہیں منزلِ مقصود

محسوس یہ ہوتا ہے کہ دنیا ہے سفر میں

قیمت میں مہ و مہر سے بڑھ کے ہوں مگر قدر

اِک سنگ ہوں ٹھکرایا ہوا راہگزر میں

اِک پھول ہوں جانِ چمن و روحِ بہاراں

اِک خار ہوں رہ رہ کے کھٹکتا ہوں نظر میں

وہ نغمہ طرازی ہے کہ ثانی نہیں رکھتا

پامالِ حوادث ہوں کہ یکتا ہوں ہنر میں

دل مرکزِ آلام! تجھے چاہیے خلوت

رکھا ہے الگ سب سے تجھے دیدۂ تر میں

کیا عرض کروں وادیٔ غربت کے مصائب

رہنے نہ دیا اپنوں نے جب اپنے ہی گھر میں

گُفتار کے آئینہ میں کردار ہے روشن

کچھ فرق نہیں مجھ میں تراشیدہ گُہر میں


روشن نگینوی

No comments:

Post a Comment