برف کا ڈھیر ہوں صحرا ہوں نہ دریا ہوں میں
مت کو مت سوچ کہ آزاد پرندہ ہوں میں
میری رگ رگ میں لہو دوڑ رہا ہے تیرا
غور سے دیکھ مجھے تیرا ہی چہرہ ہوں میں
دُھوپ ٹھہری ہے نہیں آ کے کبھی میرے قریب
وقت کے تار پہ بھیگا ہوا کپڑا ہوں میں
زندگی خوف کے دلدل میں دھنسی جاتی ہے
کیا پتہ کون سے ماحول میں زندہ ہوں میں
کب مِرا درد تیری آنکھ کی پُتلی سے بہا
صرف کو تیری ذات کا حصہ ہوں میں
صدف اقبال
No comments:
Post a Comment