Wednesday 17 April 2024

برف کا ڈھیر ہوں صحرا ہوں نہ دریا ہوں میں

 برف کا ڈھیر ہوں صحرا ہوں نہ دریا ہوں میں

مت کو مت سوچ کہ آزاد پرندہ ہوں میں

میری رگ رگ میں لہو دوڑ رہا ہے تیرا

غور سے دیکھ مجھے تیرا ہی چہرہ ہوں میں

دُھوپ ٹھہری ہے نہیں آ کے کبھی میرے قریب

وقت کے تار پہ بھیگا ہوا کپڑا ہوں میں

زندگی خوف کے دلدل میں دھنسی جاتی ہے

کیا پتہ کون سے ماحول میں زندہ ہوں میں

کب مِرا درد تیری آنکھ کی پُتلی سے بہا

صرف کو تیری ذات کا حصہ ہوں میں


صدف اقبال

No comments:

Post a Comment