Monday, 22 April 2024

دنیا ہے یہ کسی کا نہ اس میں قصور تھا

 دنیا ہے یہ کسی کا نہ اس میں قصور تھا 

دو دوستوں کا مل کے بچھڑنا ضرور تھا 

اس کے کرم پہ شک تجھے زاہد ضرور تھا 

ورنہ تِرا قصور نہ کرنا قصور تھا 

تم دور جب تلک تھے تو نغمہ بھی تھا فغاں 

تم پاس آ گئے تو الم بھی سرور تھا 

اس اک نظر کے بزم میں قصے بنے ہزار 

اتنا سمجھ سکا جسے جتنا شعور تھا 

اک درس تھی کسی کی یہ فن کاری نگاہ 

کوئی نہ زد میں تھا نہ کوئی زد سے دور تھا 

بس دیکھنے ہی میں تھیں نگاہیں کسی کی تلخ 

شیریں سا اک پیام بھی بین السطور تھا 

پیتے تو ہم نے شیخ کو دیکھا نہیں، مگر 

نکلا جو مے کدے سے تو چہرے پہ نور تھا 

مُلا کا مسجدوں میں تو ہم نے سنا نہ نام 

ذکر اس کا میکدوں میں مگر دور دور تھا


آنند نرائن ملا

No comments:

Post a Comment